امتِ مسلمہ: زنجیرِ مصلحت میں جکڑی، قیادت سے محروم، اور ہلاکت کے دہانے پر
امتِ مسلمہ: زنجیرِ مصلحت میں جکڑی، قیادت سے محروم، اور ہلاکت کے دہانے پر
از قلم: ڈاکٹر حیات قاسمی
٤ اپریل ٢٠٢٥ بروز جمعہ
ہم ایک ایسے پُرآشوب اور تاریک عہد سے گزر رہے ہیں جو تاریخِ ظلم و استبداد کے سیاہ ترین اوراق میں خونِ جگر سے رقم کیا جائے گا۔ ایک طرف وہ حکومت ہے جو مکمل منصوبہ بندی، جارحانہ سیاسی قوت، اور باطل کے خمیر سے اٹھنے والے عزم کے ساتھ ملتِ اسلامیہ ہند کو نیست و نابود کرنے پر تُلی ہوئی ہے، اور دوسری طرف ہم ہیں — بزدلی، مصلحت اندیشی، مجرمانہ خاموشی اور بے عملی کے لحاف میں لپٹے، خود فریبی کے طلسم میں محو، اور قومی بے حسی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق۔
وقف بورڈ بل، جو سطحی نگاہ میں فقط زمین و جائیداد کا معاملہ معلوم ہوتا ہے، درحقیقت امت کی معاشی خودمختاری، دینی اداروں کے تحفظ اور ملی وقار پر ایک مہلک ضرب ہے۔ یہ بل ایک خاموش مگر سفاک اعلانِ جنگ ہے — جو ہمیں نہ صرف بے زمین، بلکہ بے اختیار، مفلس، اور حاشیے پر دھکیلا ہوا گروہ بنانے کا منصوبہ ہے۔
اس سے قبل طلاقِ ثلاثہ، سی اے اے، رام مندر جیسے یکے بعد دیگرے وارد ہونے والے سانحات نے ہماری اجتماعی شناخت کو مجروح کیا، ہمارے دینی شعائر کا استہزا کیا، اور ہمیں قانونی کٹہروں میں لا کھڑا کیا۔ اور ہمارا ردِ عمل؟ محض نمائشی احتجاج، چند فلک شگاف نعرے، اور پھر گہری خاموشی — جیسے غیرت دم توڑ چکی ہو، دل مردہ ہو چکے ہوں، اور احساسات مفلوج ہو چکے ہوں۔ ہم اس درجہ بے حس ہو چکے ہیں کہ زخم کھا کر بھی کراہنے کی سکت باقی نہیں رہی۔
ہمارے وہ نوجوان جنہوں نے لب کشائی کی، جنہوں نے صدائے حق بلند کی، انہیں زندانوں کے سپرد کر دیا گیا۔ جنہوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، انہیں غدار، ملک دشمن اور شدت پسند کہہ کر سماجی طور پر مسخ کر دیا گیا۔ ان مظلوموں کی ماؤں کی سسکیاں، باپوں کے لرزتے ہاتھ، اور بہنوں کی ٹوٹتی امیدیں کیا ہماری بے جان روح کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں؟ یا ہم واقعی ایسے مردہ ضمیر ہو چکے ہیں جن پر کسی آہ کا، کسی آہٹ کا کوئی اثر نہیں ہوتا؟
ہم نے مصلحت کو تقدیر کا جام سمجھ لیا ہے، اور "صبر و حکمت" کے نام پر بزدلی کو دین کا حصہ بنا لیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہی خاموشی، یہی مصلحت، یہی نام نہاد حکمت ہمیں اجتماعی ہلاکت کے دہانے تک لے آئی ہے۔ ہم ایسے نظام میں جی رہے ہیں جہاں قانون فقط طاقتور کی ڈھال ہے، آئین اکثریتی عصبیت کا آلۂ کار ہے، اور جمہوریت محض ایک ننگی تمثیل بن چکی ہے — جس میں اقلیتیں صرف تماشائی ہیں، اور فیصلے ہمیشہ ان کے خلاف صادر ہوتے ہیں۔
ہم آئین بچانے کی بات تو کرتے ہیں، مگر خود آئینی تحفظات سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہم میں وہ جگر، وہ وحدت، وہ حرارت باقی نہیں رہی کہ کسی ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو سکیں۔ میں خود بھی اس نظام کا ایک کمزور پرزہ ہوں، بزرگ قیادت کے قدم بہ قدم چلنے والا ایک پیادہ، مگر سچ یہی ہے کہ ہمیں ثانوی درجہ دے دیا گیا ہے — اور یہ سچ ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کریں یا خود فریبی میں جیتے رہیں۔
اب یکساں سول کوڈ اور "ہندو راشٹر" کے نام پر جو فسطائی منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض خدشہ نہیں — بلکہ اعلانیہ اور منظم سازش ہے۔ "یکساں سول کوڈ" دراصل شریعتِ محمدیؐ کی جڑ کاٹنے کی کوشش ہے، اور "ہندو راشٹر" وہ فکری زہر ہے جو اب بتدریج دستور و قانون کی شکل میں اتارا جا رہا ہے۔
اس تمام تباہی کا سب سے بڑا سبب قیادت کا فقدان ہے۔ امت بے راہ، بے منزل اور بے رہبر ہو چکی ہے۔ جو لوگ مسلم نام پر سیاست کرتے ہیں، وہ درحقیقت موقع پرست، ضمیر فروش، اور قومی سوداگر ہیں۔ امت کو ایسی قیادت درکار ہے جو دین کی سچی ترجمان ہو، جس میں ایمان کی حرارت، حکمت کی روشنی، اور غیرت کی چنگاری ہو۔ جو ظالم کے سامنے فولاد بن جائے، جو جھکے نہیں، بکے نہیں، اور امت کو اس غفلت، بے حسی اور مصلحت پرستی سے نکال کر میدانِ جدوجہد میں لا کھڑا کرے۔
ہمیں عمر بن خطابؓ جیسے مردانِ حق درکار ہیں — جن کی ہیبت سے ظلم کانپے، جن کی زبان عدل کا علم بلند کرے، اور جن کا کردار امت کو خوابِ غفلت سے بیدار کرے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہماری مساجد بے حرمت ہوں گی، مدارس صفحۂ ہستی سے مٹائے جائیں گے، اور ہماری آئندہ نسلیں صرف کتابوں میں "کبھی مسلمان ہوا کرتے تھے" کے الفاظ میں زندہ رہیں گی — جیسا کہ اس کا آغاز ہو چکا ہے۔
اب بھی وقت ہے — یا تو بیدار ہو جاؤ، قیادت خود پیدا کرو، مردانِ کار تراشو، اور ملت کو شعور دو — یا پھر مزید غلامی، مزید ذلت اور مکمل نابودی کے لیے تیار رہو۔
اللّٰہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔
(القرآن)
میں جذباتی ضرور ہوں، میری زبان تلخ ہو سکتی ہے، مگر میرا سینہ دردِ امت سے لبریز ہے۔
اللّٰہ ہمیں بیداری عطا فرمائے، بصیرت عطا کرے، اور امت کو ایسی قیادت بخشے جو نبیؐ کے دین کی سچی وارث ہو۔
آمین یا رب العالمین۔
Comments
Post a Comment